واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 

حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادھم

رحمتہ اللہ علیہ

 

آپ کا اسم گرامی حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمتہ اللہ علیہ    بن سلیمان بن منصور بن یزید بن جابر ہےاورآپ کی کنیت ابو اسحق ہے۔آپ کا نسب پانچ واسطوں سے حضرت امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب   رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے جا ملتا ہے۔

حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمتہ اللہ علیہ    بلخ کے بادشاہ تھے۔دن کو لوگوں کی ضرورتیں پوری کیا کرتے تھے اور رات کو اللہ تعالٰی کی عبادت میں مشغول رہتے تھے۔خزینہ الاصفیاء میں لکھا ہوا ہے کہ ایک روز حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمتہ اللہ علیہ    اپنے محل میں سوئے ہوئے تھے کہ چھت پر کسی کے ڈورنے کی آواز سنائی دی۔ آپ بیدار ہوئے اور آواز دی کہ چھت پر کون ہے ؟ جواب آیا کہ میں ایک مسافر ہوں  میرا  اونٹ گم ہو گیا تھا اسے تلاش کر رہا ہوں۔ حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمتہ اللہ علیہ    نے کہا ارے بے وقوف گھروں کی چھتوں پر  بھی اونٹ ملتے ہیں ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اونٹ گھر کی چھت پر آجائے۔اس شخص نے جواب دیا تم تو مجھ سے بھی زیادہ بے وقوف ہو۔کبھی خدا بھی شاہی محلات میں ملتا ہے۔ تم ریشمی بستر پر آرام کرتے ہواور چاہتے ہو کہ تمہیں خدا مل جائے۔ یہ کیسے ہو سکتاہے۔

اس بات نے  حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمتہ اللہ علیہ     کے دل کی دنیا بدل دی ۔آپ صبح اٹھے اور اپنے بیٹے کو تخت نشین کر دیا ۔ امور سلطنت اس کے حوالے کیے اور شہر چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل گئے۔راستے میں اپنا شاہی لباس اُتار کر ایک گڈریئے کو بخش دیا اور اس کے پٹھے پرانے کپڑے خود پہن لیے۔

 

آپ تارک الدنیا ہو گئے اور صحرا نوردی کرتے ہوئے نیشا پور کے نواح میں پہنچ گئے وہاں ایک غار میں نو سال تک مصروف ریاضت رہے۔کہتے ہیں کہ آپ جمعرات کی رات کو غار سے باہر نکلتے لکڑیوں کا گھٹا جمع کرتے  ۔پھر اس گھٹے کو سر پر اٹھا کر شہر لے جاتے اور لکڑیاں بیچ کر جو کچھ اس سے حاصل ہوتا اس کا نصف خدا کی راہ میں دے دیتے اور نصف سے اپنی ضرورت کی چیزیں خرید کر لے آتے۔

اسی دوران آپ کو ایک غیبی اشارہ ہوا جس کے بعد آپ  مکہ معظمہ تشریف لے گئےجہاں آپ کی ملاقات حضرت خواجہ فضیل بن عیاض   رحمتہ اللہ علیہ    سے ہوئی جنہوں نے آپ کو  اپنے حلقہ ارادت میں شامل کیا ۔ اور کچھ عرصہ تک وہیں عبادت و ریاضت میں مشغول رہے اور ظاہری وباطنی کمالات حاصل کیے۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو بہت سے بزرگان دین سے شرف نیاز حاصل رہا حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ  کے بقول آپ رحمتہ اللہ علیہ  فقراء کے تمام علوم و اسرار کی کنجی ہیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا مشہور قول ہے کہ جب گناہ کا ارادہ کرو تو خدا کی بادشاہت سے باہر نکل جائو۔

  ایک دن خواجہ شفیق بلخی  جو حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمتہ اللہ علیہ    کےخلفامیں سےتھے حاضر ہوئےتو ایک درویش جو کہ صاحب کشف و کرامات تھا وہ بھی مجلس میں بیٹھا تھا۔ حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمتہ اللہ علیہ    نے اس درویش سے پوچھاکہ تم گزر اوقات کیسے کرتے ہو؟ وہ کہنے لگا کہ اگر مل جائے تو کھالیتا ہوں ورنہ صبر کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا یہ کام تو ہماری گلی کوچے کے کتے بھی کرتے ہیں۔ ہونا تو یوں چاہیے کہ اگر نہ ملے تو صبر کرو اگر مل جائے تو اللہ کی راہ میں قربان کردو۔

حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمتہ اللہ علیہ    ایک دن دریاکے کنارے پہنچے اور دریا کے پار جانا چاہا تو ملاح نے کرایہ مانگا آپ نے دریا کی ریت سے مٹھی بھری اور ملاح کی جھولی میں ڈال دی۔ ملاح نے غورسے دیکھا تو وہ ریت نہیں سونا تھی۔

جن دنوں  حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمتہ اللہ علیہ    بلخ چھوڑ کر بیابان میں چلے گئے تھے تو چند دن دریا کے کنارے  قیام کیا۔وہاں امرا اور وزرا حاضر ہوئے  اور آپ سے درخواست کی کہ آپ واپس چلیں ۔اس وقت آپ اپنی گڈری سی رہے تھے۔آپ نے سوئی دریا میں پھینک دی اور فرمایا کہ تم بہت طاقت ور ہو دُنیا کے تمام اسباب تمہارے پاس موجود ہیں ۔دریا سے میری سوئی نکال دو۔کوئی بھی سوئی نہ نکال سکا۔آپ نے بلند آواز میں کہا کہ اے دریا کی مچھلیوں میری سوئی نکال کر لاؤ۔اُسی وقت ہزاروں مچھلیاں اپنے منہ میں چاندی کی سوئیاں اٹھائے ہوئے پانی پر تیرنے لگیں۔اُن میں  سے ایک مچھلی کے منہ میں  حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمتہ اللہ علیہ    کی بھی سوئی تھی ۔ آپ نے ہاتھ بڑھا کر اس سے سوئی لے لی اور باقی مچھلیوں کو رخصت کر دیا  اور وزرا  و امرا کو مخاطب کرکے فرمایاکہ ہماری سلطنت تمام جہاں پر ہے ۔اب ہمیں بلخ کی سلطنت کی ضرورت نہیں ہے۔

حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمتہ اللہ علیہ    کے وصال کے بارے میں اختلاف ہے بہرحال مختلف روایات کی روشنی میں آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی اس دار فانی سے رخصتی ۱۶۰ ہجری اور۱۶۶ ہجری کے عرصہ کے دوران قرار پاتی ہے ۔

 آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے مزار کے متعلق بھی اختلاف ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  شام میں مدفون ہیں۔ بعض روایات کے مطابق آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو بلاد روم کے ایک بحری جزیرہ میں سپرد خاک کیا گیا ۔ ایک روایت کے مطابق آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا مزار بغداد ( عراق) میں ہے ایک خیال یہ بھی ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  بلاد روم کے ایک قلعہ’’ سوقین‘‘ میں مدفون ہیں۔ شہزادہ دارا شکوہ قادری رحمتہ اللہ علیہ  نے آپ کا شام میں مدفون ہونا زیادہ درست تسلیم کیا ہے۔